مسلمانوں کی وہ فلکیاتی تحقیقات کہ جن پر اہل مغرب نے پردہ ڈالا انجینئر محمد فرقان سنبھلی

 

مسلمانوں کی وہ فلکیاتی تحقیقات کہ جن پر اہل مغرب نے پردہ ڈالا

انجینئر محمد فرقان سنبھلی


 
مسلمانوں کی وہ فلکیاتی تحقیقات کہ جن پر اہل مغرب نے پردہ ڈالا

     

  کہا جاتا ہے کہ یورپ نے فلکیات کی مشعل مسلمانوں سے حاصل کی اور مغربی دنیا کو منور کر دیا لیکن یہ اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیا کہ علم کی یہ روشنی کہا ں سے آئی۔ اس حقیقت کا اعتراف دنیا کے مشہور دانشوروں نے اپنے اپنے طور پر کیا ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے ہی مشاہدی تجربات اور تحقیقات کی بنیاد ڈالی۔ ہٹی  (Hitti)نے اپنی کتاب"A short story of Arab" میں لکھا ہے کہ قرون وسطیٰ میں کسی قوم نے انسانی ترقی میں اتنا حصہ نہیں لیا جتنا کہ مسلمانوں نے۔ ہینری پرمنے  (Henri Pirmne)نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسلام نے کرہ ارض کی شکل ہی بدل دی۔      

اب سوال یہ ہے کہ پھر تمام فلکیاتی ترقیاں یورپ سے منسوب کیوں کر ہیں۔ یورپ میں اسلامی فلکیاتی ذخیرہ در اصل بغداد کی بیت الحکمہ نام کی انجمن کے ذریعہ پہنچا اس انجمن کو ۱۸۳۲ء میں بغداد کی حکومت نے قائم کیا تھا اور اس میں عربوں کی تصنیف شدہ کتابیں لاطینی (Latin)یونانی (Greek )وغیرہ زبانوں میں منتقل کی جاتی تھیں شاید اس کام کا مقصد یورپ میں بھی اپنا نام روشن کرنا تھا لیکن ہوا یہ کہ سب گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئے اور اہل یورپ نے اس سے استفادہ کر کے تمام دنیا کو منور کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔

            جب مسلمان ماہرین فلکیات کی کتابیں یورپ پہنچی تو انہوں نے یہ خطرناک کام انجام دیا کہ ان کے مصنف کے ناموں میں تبدیلی کر کے انہیں یوروپی انداز میں ڈھال کر پیش کیا۔مثلاً

            ابن رشد                        (Averroes)

            بو علی سینا                                    (Avicenna)

            اور موسی بن میمون کو       (Memunides)

لکھا گیا۔ اسی طرح کئی اور ناموں میں بھی تبدیلی کر دی گئی۔ اس سے لوگوں میں یہ تبدیل ہوئے نام مشہور ہوئے۔ درحقیقت اہل یوروپ کی یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہی تھی۔ کہ دنیائے سائنس سے مسلمانوں کی خدمات کے علاوہ ان کے ناموں سے بھی دور رکھا جائے۔ ان کی یہ کوشش کافی حد تک کامیاب بھی رہی لیکن ایسے سیکڑوں تاریخی حوالے دستیاب ہوئے ہیں جو یہ تصدیق کرتے ہیں کہ بلاشبہ عرب مسلمانوں کے ذریعہ ہی سائنس اور فلکیات کا سیلاب آیا اور ساری دنیا میں پھیل گیا آج کا جدید فلکیات بھی در اصل مسلمانوں کی تعمیر کردہ بنیاد پر منحصر ہے۔

            مسلمان فلکیاتی ماہرین کی خدمات کا تعارف اس طرح ہے۔

            ۷۷۶ء میں ابراہیم بن جندب نے سب سے پہلے عجائب الفلک کے مشاہدے کے لئے دوربین ایجاد کی تھی۔ دنیا کا پہلا ماہر فلکیات تھا احمد بن سجستانی جس نے گردش زمین کا نظر یہ پیش کیا تھا۔

            جابر بنانی  (وفات ۸۱۷ء) نے سورج کی گزرگاہ کا جھکاؤ ساڑھے تئیس درجہ کی جگہ تئیس درجہ35منٹ دریافت کیا تھا۔ احمد کثیر الفرغانی  (وفات۹۰۳ء) نے اپنے طریقہ سے زمین کی محیط کی پیمائش معلوم کی تھی جو مسلمہ محیط سے بہت قریب ہے۔ ابن یونس صوفی  (وفات ۱۰۳۷ء) نے اپنی کتاب ’’الشفاء‘‘ میں حرکت کا قانون بیان کیا ہے اس قانون کو یوروپ نے بوعلی سینا کے پانچ سال بعد نیوٹن کی ایجاد کے طور پر ساری دنیا میں مشہور کرا دیا۔

            ماہر علم فلکیات ابو الوفابوز جانی  (وفات ۱۰۱۱ء) نے ثابت کیا کہ سورج میں کشش ہوتی ہے اور سورج کی کشش سے اس کی گردش کرتا ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ چاند کی گردش زمین کے گرد ہوتی ہے اور سورج کی کشش سے اس کی گردش میں خلل پڑ جاتا ہے۔ اسی کو چاند کا گھٹنا اور بڑھنا  کہا جاتا ہے۔ اس کو سولہویں صدی کے سائنسداں ٹائکو براہی (Tycobrahi)سے منسوب کرا دیا گیا۔

            علم فلکیات کا ماہر اور جغرافیہ داں ابو ریحان البرنی نے زمین کی محیط کی پیمائش معلوم کی تھی، البیرونی نے سورج کے مشاہدے کے بعد ارض البلد اور طول البلد معلوم کرنے کا طریقہ ایجا د کیا تھا جس میں سورج کے فاضل راسی اور میلا کے ذریعہ عرض البلاد نکالنے کے عام طریقوں کا بیان ہے۔ البرونی نے زمین کی محوری گردش کو بھی بیان کیا ہے۔

            عمر خیام کو لوگ فلسفی اور شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ لیکن علم ہیئت میں اس کے ماہر ہونے کو کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ اس نے شمسی سال کی جو تعداد معلوم کی وہ دور جدید کے علماء کی تحقیق سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ صرف ۴۸ سیکنڈ کا فرق ملتا ہے۔ خیام نے شمسی سال ۳۶۵ دن ۵ گھنٹے ۴۹ منٹ کا حساب کیا۔ اور جدید تحقیق سے ۳۶۵ دن ۵ گھنٹے ۴۹ منٹ اور ۴۸ سکنڈ کا ہوتا ہے۔

            محمد بن محمد ادریس دنیا کا سب سے پہلا عظیم جغرافیہ داں ہے جس نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’نذھت المشتاق فی احتراق الافاق‘‘ میں پہلی بار دنیا کے گول ہونے کی بات لکھی تھی۔

            عبد الرحمن خازن نے انکشاف کیا کہ کسی چیز کا وزن سطح زمین پر جتنا ہوتا ہے وہ ہوا میں اس سے کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر چیز کا وزن پانی میں کم ہو جاتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ زمین کے چاروں طرف ہوا کا غلاف اس لئے ہے کہ زمین اس کو اپنی طرف کھنچتی ہے چنانچہ زمین سے جتنا اوپر ہوتے جاتے ہیں ہوا کم ہوتی جاتی ہے۔

            قزدینی  (وفات۱۲۸۳ء) نے زمین کے اپنے محور پر سورج کے اطراف گھومنے اور اس کی وجہ سے موسم بدلنے کا انکشاف کیا۔ قزدینی نے یہ بھی کہا کہ چاند زمین اور سورج کے ارد گرد گھوم رہا ہے اس نے یہ بھی کہا کہ سورج از خود بھی حرکت میں ہے۔

            ان کے علاوہ کچھ ایسی بھی دریافتیں ہوئی ہیں جن کا تاریخی پس منظر ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن وہ یوروپی ماہرین فلکیات کے ناموں سے منسوب کی جاتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی کھوج کی جائے۔ اور ان کو مع ثبوت دنیا کے سامنے رکھا جائے۔ تاکہ ان عظیم ماہرین کو ان کا واجب حق حاصل ہو سکے۔ اور عالم اسلام کا سر بھی فخر سے اونچا ہو جائے۔

            مختصر میں مسلمانوں کی فلکیاتی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے۔

             (۱) اجرام سمادی کی حرکات کی زیجوں کا مرتب کرنا۔

             (۲) سب سے پہلے سال کی درست مدت کا تعین کرنا۔

             (۳)چاند کے زیادہ سے زیادہ ارتفاع کا اختلاف دریافت کرنا۔

             (۴) چاند کے اس تیسرے اختلاف کا معلوم کرنا جو آفتاب کے فاصلے سے پیدا ہوتا ہے اور اس جیسے اختلاف حرکت قمر کہتے ہیں اسکا اکثاف ۱۶۰۱ء میں ٹیکو براہی سے منسوب کیا جاتا ہے۔

             (۵) استقبال معدل النہار کا ٹھیک معلوم کرنا۔

 


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی